کھو چکا ہوگا جنوں بس آگہی رہ جائے گی
زندہ ہوں گے لوگ پرکب زندگی رہ جائے گی
بیچ دی جائے گی غم کے ہاتھ دلکی آبرو
اور پھر ہمراہ اک شرمندگی رہ جائے گی
چھین لی جائے گی آنکھوں سے بصارت کی بہار
اور ہمیشہ کے لیے ان میں نمی رہ جائے گی
دل لگانے والے اس بستی سے کر جائیں گے کوچ
اور اس بستی میں باقی بے دلی رہ جائے گی
سب چراغ اک ایک کرکے اپنی لو کھو دیں گے اور
اپنے چاروں سمت اک تیرہ شبی رہ جائے گی
کیا ہوائے مصلحت تھی لے اڑی غم بھی ترا
ہم سمجھتے تھے یہ اک مشعل جلی رہ جائے گی
وہ مثالِ ابرِ آوارہ گزرتا جائے گا
اور ساری خلق اس کو دیکھتی رہ جائے گی
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ