غزل
کھیل تھا اپنی انا کا عشق اسے سمجھا کیا
میں نے اپنے آپ سے کتنا بڑا دھوکا کیا
عمر بھر کا ہم نفس اک پل میں رخصت ہو گیا
اور میں خاموش اسے جاتے ہوئے دیکھا کیا
اک ذرا سی بات پر روٹھا رہا وہ دیر تک
مسکرا کے خود ہی پھر میری طرف چہرا کیا
فکر کی لذت کے باعث ہیں مری ناکامیاں
سب عمل کرتے رہے اور میں فقط سوچا کیا
زخم کی اک آگ تھی جس سے سخن روشن رکھا
درد کی اک لہر تھی میں نے جسے نغمہ کیا
سب ہی کچھ اس سے نہ کہنا تھا جو تیرے دل میں تھا
شدت اظہار میں تو نے فراستؔ کیا کیا
سید فراست رضوی