غزل
کہاں قسمت میں بزم آرائیاں تھیں
جہاں ہم تھے وہاں تنہائیاں تھیں
مرے مرنے پہ تم کو یاد آیا
مرے اندر بہت اچھائیاں تھیں
بچھڑتے وقت میں نے ماں کو دیکھا
وہ بوڑھی تو نہیں تھی جھائیاں تھیں
دلِ برباد تھا وہ شے کہ جس کے
مقدّر میں فقط رسوائیاں تھیں
نظر انداز ہی کرنا اگر تھا
تو پھر کس کام کی بینائیاں تھیں
میں یونہی تو نہیں نکلی سفر پر
مرے پیچھے کئی پرچھائیاں تھیں
ہمارا گھر محلے میں الگ تھا
جہاں پر شور نہ شہنائیاں تھیں
عمود ابرار احمد