غزل
کہاں کہاں سے سمیٹوں شکستہ خوابوں کو
کہ ضبط غم کا سلیقہ نہیں ہے آنکھوں کو
عجب بہار خزاں ہے چمن میں اب کی بار
ہوا اڑاتی پھری میرے خشک پتوں کو
سفر ابھی تو ذرا سا کیا ہے تیرے بغیر
ابھی تو رونا بہت ہے اداس آنکھوں کو
ابھی تو عمر کا یہ دشت پار کرنا ہے
چراغ کرنا ہے کچھ بے چراغ راتوں کو
وہ راستہ بھی عجب تھا وہ ہم سفر بھی کمال
جو مجھ کو سونپ گیا سر پھری ہواؤں کو
کہ جن کو کاٹ دیں خود موجۂ بہار کے ہات
سجائے کون پھر ایسی بریدہ شاخوں کو
چمکتی جاتی ہیں اور بھیگتی بھی جاتی ہیں
ہنر یہ کس نے سکھایا ہے میری پلکوں کو
میں بھول جاتی ہوں ہر صبح تیرا نام مگر
میں یاد کرتی ہوں ہر رات تیری باتوں کو
صائمہ زیدی