کہا گیا ہے کہ وہ جان کی امان میں ہے
اسے خبر نہیں فہرست۔کشتگان میں ہے
چکھا تھا جد نے کبھی جو مزہ غلامی کا
نمک کا اب بھی وہی ذائقہ زبان میں ہے
دیار۔غیر کبھی ماں کو چھوڑ کر نہ گیا
اکیلا رہ گیا چھوٹا جو خاندان میں ہے
جدائ کا وہ ہرا زخم کیسے بھر پا تا
کہ تیر اب بھی مرے دل کے درمیان میں ہے
ذرا سی بات کے کتنے بنے ہیں افسانے
فساد جتنا ہے سب شورش۔ بیان میں ہے
یہ کس نے کہہ دیا گر کر سنبھل نہیں سکتے
کہ ہمتوں کا پرندہ نئی اڑان میں ہے
کسی کے غم میں کہاں روئیں سنگدل آنکھیں
مگر عجیب سا دکھ میری داستان میں ہے
غموں کے ہاتھ میں کیا یر غمال ہوں اے نور
کہ کوئی سایہ ابھی تک مرے مکان میں ہے
نورِ شمع نور