غزل
کہنے کو یوں تو ابر کرم قطرہ زن ہوا
وہ گل کھلے ندیم کہ خون چمن ہوا
یہ داغ دل کہ جن سے رواج سحر چلا
نوک مژہ پہ اشک جو ابھرا کرن ہوا
پتھر کی مورتیں نظر آتی ہیں چار سو
یا رب ترے جہاں کو یہ کیا دفعتاً ہوا
دونوں میں گونجتی ہیں بہاروں کی دھڑکنیں
میری غزل ہوئی کہ تمہارا بدن ہوا
دونوں سے ہو رہا ہے نئی صبح کا ظہور
تیری قبا ہوئی کہ ہمارا کفن ہوا
طاہرؔ سیاہ فام ہوئے ہم تو غم نہیں
روشن ہمارے نام سے نام سخن ہوا
جعفر طاہر