غزل
کہیں سکون کا نام و نشاں نہیں ملتا
تھکن ہے اتنی کہ آرام جاں نہیں ملتا
رہ تلاش میں لازم ہے دیدہ ور ہونا
نگاہ شوق کو جلوہ کہاں نہیں ملتا
بجھے ہوئے ہیں ہر اک سو بصیرتوں کے چراغ
کوئی بھی دیدہ ور و نکتہ داں نہیں ملتا
کسی کی دید کا اک طرفہ سانحہ کہیے
کہ ان کو دیکھ کے اپنا نشاں نہیں ملتا
خبر ہی کیا انہیں انعامؔ رمز فطرت کی
وہ جن کو بادۂ روحانیاں نہیں ملتا
انعام تھانوی