کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا
ستارے زیرِ قدم رات آئے ہیں کیا کیا
نشیبِ ہستی سے افسوس ہم ابھر نہ سکے
فرازِ دار سے پیغام آئے ہیں کیا کیا
جب اس نے ہار کے خنجر زمیں پہ پھینک دیا
تمام زخمِ جگر مسکرائے ہیں کیا کیا
چھٹا جہاں سے اس آواز کا گھنا بادل
وہیں سے دھوپ نے تلوے جلائے ہیں کیا کیا
اٹھا کے سر مجھے اتنا تو دیکھ لینے دے
کہ قتل گاہ میں دیوانے آئے ہیں کیا کیا
میں کچھ سمجھ گیا اور کچھ سمجھ نہیں سکا
جھُکی نظر نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا
جو ہو لیا تھا مرے ساتھ چاند چوری سے
اندھیرے راستے کے جگمگائے ہیں کیا کیا
کہیں اندھیرے سے مانوس ہو نہ جائے ادب
چراغ تیز ہوا نے بجھائے ہیں کیا کیا
کیفی اعظمی