کیا خوب یہ انا ہے کہ کشکول توڑ کر
اب تک کھڑے ہوئے ہیں وہیں ہاتھ جوڑ کر
۔
مر ہی نہ جائے ضبط فغاں سے کہیں یہ شہر
سینے سے اس کے آہ نکالو جھنجھوڑ کر
۔
سنت ہے کوئی ہجرت ثانی بھلا بتاؤ
جاتا ہے کوئی اپنے مدینے کو چھوڑ کر
۔
اس کے علاوہ کوئی ہمارا نہیں یہاں
جاؤ کوئی خدا کو بلا لاؤ دوڑ کر
۔
عاصمؔ یہ دکھ تو جھیلنے پڑتے ہیں عشق میں
چادر نہ ہو تو سوتے نہیں خاک اوڑھ کر
لیاقت علی عاصم