Kia Such hay to kia jhoot Hay yeh sooch raha hoon
غزل
کیا سچ ہے تو کیا جھوٹ ہے یہ سوچ رہا ہوں
میں دونوں طرف شعبدہ بازوں میں گھرا ہوں
جنت کے حسیں خواب دکھائے گئے مجھ کو
اور آج جہنم کے دہانے پہ کھڑا ہوں
ناسور بنایا ہے خود ہر زخم کو اپنے
اور خود ہی میں تکلیف پہ اب چیخ رہا ہوں
اِک معرکہ آرائی میں مصروف ہوں کب سے
اب یاد نہیں ہے کہ میں کس کس سے لڑا ہوں
ہر راستے پہ دھند ہے جس سمت بھی دیکھوں
تو کیسے بتاؤں کہ میں کس سمت چلا ہوں
تلوار لیے لوگوں کو للکار رہا ہوں
دراصل مگر اپنے جنازے پہ کھڑا ہوں
سید تقی حیدر تقی
Syed Taqi Haider Taqi