غزل
کیا لوگ تھے جو بزم جہاں سے گزر گئے
سرمایہ ہائے فکر و نظر چھوڑ کر گئے
مسموم تر فضائے گلستاں نہیں تو پھر
پھولوں کے کیوں بہار میں چہرے اتر گئے
کھائے ہیں وہ فریب مسلسل کہ الاماں
مہر و وفا کے نام سے بھی ہم تو ڈر گئے
کیا کہیے ان کی تیرہ نصیبی کہ دہر میں
جو جیتے جی ہی گردش دوراں سے مر گئے
تھی جن سے زندگی بھی حقیقت میں زندگی
وہ نالہ ہائے نیم شبی و سحر گئے
جذبات عشق و غم کی وہ رعنائیاں نہ پوچھ
جن سے حسین و خوب سے چہرے نکھر گئے
یوں ہیں کتاب زیست کے اوراق منتشر
تسبیح جیسے ٹوٹ کے دانے بکھر گئے
کچھ خاص دور ہوتے ہیں فن کی نمود کے
افسوس وہ مواقع عرض ہنر گئے
جن سے قدیم ربط تھا وہ چند خاص دوست
انعامؔ رنج ہے کہ جہاں سے گزر گئے
انعام تھانوی