کیا منافع کسی بازار و دکاں سے آئے
ہاں مگر اپنی طرف راہِ زیاں سے آئے
عمرِ سرسبز پہ کیا طائرِ خواہش اترے
تیر لہراتا ہوا باغِ جہاں سے آئے
اپنے ہمزاد سے ذرے مرے ملنا چاہیں
اُس ستارے سے کہو کاہکشاں سے آئے
ایک دو پٙل کی ملاقات سرِ راہ بہت
بوئے مجبوری ہمیں ہم نٙفٙساں سے آئے
گھر بنا بیٹھی ہے اس گھر کی جڑوں میں دیمک
رنگ جو بھی ہو وہ مٙس ہو کے خزاں سے آئے
تیرا حصہ ہے زمیں اور فلک میں طاہر
ایک آوازِ یقیں، شہرِ گماں سے آئے
قیوم طاہر