غزل
کیا کرتے کہیں اور ٹھکانہ ہی نہیں تھا
ورنہ ہمیں اس کوچے میں آنا ہی نہیں تھا
ہنگامۂ وحشت تھا جہاں جشن جنوں میں
دیکھا تو وہاں کوئی دوانہ ہی نہیں تھا
وہ دل کی لگی ہے کہ بجھائے نہیں بجھتی
کل رات گلے اس کو لگانا ہی نہیں تھا
ملتا ہے تو اب آنکھ ملا بھی نہیں پاتا
وہ خواب اسے یاد دلانا ہی نہیں تھا
جب دیکھو اسی یاد کے نرغے میں پڑے ہو
یہ حال اگر ہے تو بھلانا ہی نہیں تھا
تاریکیٔ صحرا میں ڈراتی ہے اک آواز
یوں دل کو سر شام بجھانا ہی نہیں تھا
وہ شخص جسے سوچ کے آنکھوں میں گئی رات
محفوظؔ اسے دھیان میں لانا ہی نہیں تھا
احمد محفوظ