غزل
کیا یہ دیکھیں کہ کوئی اور تماشا کیا ہے
ہم کو خود اپنے علاوہ نظر آتا کیا ہے
بعض دریاؤں کے منظر بھی عجب ہوتے ہیں
آدمی سوچتا رہ جائے کہ صحرا کیا ہے
وہ تو اچھا ہے کہ ہم ہی خس و خاشاک نہیں
ورنہ ان تیز ہواؤں کا بھروسہ کیا ہے
بجھ گئے ہیں جو دیے پھر سے جلائیں کہ نہیں
کوئی بتلاؤ ہمیں رنگ ہوا کا کیا ہے
ہو ملاقات اور احساس ملاقات نہ ہو
تیرا ملنا جو یہی ہے تو بچھڑنا کیا ہے
دشت کے دھوپ نے ہم کو یہ بتایا خاورؔ
اپنے گھر کے در و دیوار کا سایہ کیا ہے
رحمان خاور