غزل
کیسے نہ کہا جائے اسے کام کا منظر
آنکھوں کی ضرورت ہے در و بام کا منظر
دل ہے ہی اندھیروں کا طلبگار سو اس میں
اترے گا بہر طور کسی شام کا منظر
جس جس میں نہ آئیں گے نظر مجھ کو مرے لوگ
میں نام اُسے دوں گا فقط نام کا منظر
تب جا کے ہی ہوتی ہے ان آنکھوں کی تسلی
جب اِن کو دکھاتا ہوں میں ہر گام کا منظر
سو بار جھپک لی ہیں اُسے دیکھتے آنکھیں
میں اب بھی سحر کہہ دوں اُسے کام کا منظر
اسد رضا سحر