کیسے وہم و قیاس سے گزرا
خواب میں بھی ہراس سے گزرا
ہرعمارت بہار بستہ ہے
کون چیرنگ کراس سے گزرا
رات اک کم سخن بدن کے میں
لہجہ ئ پُر سپاس سے گزرا
پھر بھی صرفِ نظر کیا اس نے
میں کئی بار پاس سے گزرا
رو پڑی داستاں گلے لگ کر
جب میں دیوانِ خاص سے گزرا
عمر بھر عشق ،حسن والوں کی
صبحتِ ناشناس سے گزرا
کیا کتابِ وفا تھی میں جس کے
ایک ہی اقتباس سے گزرا
مثلِ دریا ہزاروں بار بدن
اک سمندر کی پیاس سے گزرا
ہجر کے خارزار میں منصور
وصل کی التماس سے گزرا
منصور آفاق