غزل
کیوں اے خیال یار تجھے کیا خبر نہیں
میں کیوں بتاؤں درد کدھر ہے کدھر نہیں
نشتر کا کام کیا ہے اب اچھا ہے درد دل
صدقے ترے نہیں نہیں اے چارہ گر نہیں
کہتی ہے اہل ذوق سے بیتابیٔ خیال
جس میں یہ اضطراب کی خو ہو بشر نہیں
ہستی کا قافلہ سر منزل پہنچ گیا
اور ہم کہا کیے ابھی وقت سفر نہیں
دیوان گان عشق پہ کیا جانے کیا بنی
وارفتگیٔ حسن کو اپنی خبر نہیں
دنیائے درد دل ہے تو دنیائے شوق روح
ہوں اور بھی جہاں مجھے کچھ بھی خبر نہیں
صحرائے عشق و ہستئ موہوم و راز حسن
ان منزلوں میں دل سا کوئی راہبر نہیں
ہر ذرہ جس سے اک دل مضطر نہ بن سکے
وہ کوئی اور چیز ہے تیری نظر نہیں
اس بے دلی سے کہنے کا بیخودؔ مآل کیا
الفاظ کچھ ہیں جمع معانی مگر نہیں
بیخود موہانی