خزاں رسیدہ شجر سے جھڑتے
ضعیف پتوں کے خشک ریشوں کے لب پہ نوحوں کے گل کھلے ہیں
سماعتوں کو قریب لاؤ
تنے کی ہچکی بلا رہی ہے
لرزتی آواز کے سہارے
ملول شاخوں کی سینہ کوبی
جو آیتِ ہجر کی تلاوت سے پیشتر ہی ہوا کی وحشت کا زہر پینے کی جستجو میں پڑی ہوئی ہے
مجھے بتاؤسنی ہے تم نے
شجر کی سسکی
خدا کو جو سرخ پانیوں کی ندی کی جانب بلا رہی ہے
سنی ہے تم نے ہوائے نخوت کی خون ریزی
نہیں سنی نا!
اَذّیتوں کے نوکیلے خنجر
یقین لے کر،فریب دے کر
جو چھال کو زخم سونپتی ہے
سُنی ہیں سرگوشیاں شجر کی؟
ہر ایک پتّا
اذیتوں کی الگ کہانی کا بوجھ لادے
خدائے برگ و ثمر کی جانب دعا کی ناؤ کے ڈوبنے کا ہی منتظر ہے
عجیب ڈر ہے عجیب غم ہے
مگر یہ مٹی سے بیر رکھتے خدا کا لہجہ شدید کیوں ہے؟
عجیب نخوت
ہر ایک شے کو رگیدنے پہ تُلا ہوا ہے
ہر اک شکایت کو اپنے پیروں سے روندتا ہے
کفن کی حسرت بدن سے روحوں کو کھینچتی ہے
سنی ہے پتوں کی ننگی لاشوں پہ اوس پڑنے کے بعد اُٹھتی غبارِ ہستی کی پہلی ہچکی
جسے کسی بھی نئے دِلاسے کی اَب طلب ہی نہیں رَہی ہے
سنی ہے دھک دھک
وہ ڈوبتی دھڑکنوں کی دھک دھک
خزاں رسیدہ شجر کو سیراب کرتے پانی میں دفن ہونے کی خواہشوں کو فریب دینے کی دُھن میں کب سے بھٹک رہی ہے
ہمارے ماتھے پہ اک نئے غم کی پھر سیاہی چمک رہی ہے
مگر یہ سب تم سنو گے کیسے
تمہیں تو صدیوں کے بہرے پن کا مرض ہے لاحق
تمہارے چہرے پہ ایسی آنکھیں بنی نہیں ہیں
سو تم نے دیکھا نہیں شجر کی تمام شاخوں کا گریہ کرنا
ہر ایک پتے میں چھید اور چھید ایسے جن میں
کئی زمانوں کی خستگی کے نقوش ٹھہرے
عجیب غم ہے کہ سر بریدہ شہید پتّے
نگارِ ہستی کے آئنے پہ جو روشنی کا برادہ مل کر
ہوا کے سینے سے لگ کے رونے کی آرزو میں زمیں پہ گرنے سے پیشتر ہی مرے ہوئے ہیں
تمہیں کوئی دکھ،کسی بھی لمحے،کہیں بھی،محسوس کب ہوا ہے؟
تمہاری چپ سے میں آشنا ہوں
تمہارے منہ میں زبان کب تھی
کبھی نہ سوچا محبتوں میں اجڑ کے جینا محال ہو گا
کہ سوچنے کو یہ نیلی، پیلی، ہری رگوں میں،سیالِ بے رنگ بھی ہے درکار
مگر تجھے اب یوں سرخ رنگوں سے آشنائی کا زہر پینے سے کون روکے
تو گارے مٹی سے ہی بنا ہے،مگر خدا ہے
سو میرے شکوے، گلے ندارد، بے کار میرا یہ رونا دھونا
جو تم نے چاہا وہی ہوا ہے
جو تیری چاہت وہی تو ہوگا
بھلی ہے مجھ کو مری خموشی جو چپ سے لاکھوں گنا بھلی ہے
خموش ہوں میں، خموش ہوں میں
دانش عزیز