غزل
گاڑیوں سے نہ تیری کوٹھیوں سے
دنیا چلتی ہے چند روٹیوں سے
دل میں آئے کوئی کھری عورت
یہ کنواں بھر گیا ہے کھوٹیوں سے
آپ کو خوف ہے نشیبوں کا
میں گرا ہوں بلند چوٹیوں سے
پیار عنقا ہے جب جہاں سے ملے
گوریوں کالیوں کلوٹیوں سے
آخری انجمن سجاؤں گا
نئے یاروں سے اور لنگوٹیوں سے
مہرباں سی دعا سلام اکرامؔ
بڑی بہنوں کی جیسے چھوٹیوں سے
اکرام عارفی