غزل
گردش میں چشم دوست کا پیمانہ آگیا
لیجے مقام سجدۂ شکرانہ آ گیا
میں اور شراب ناب مگر اس کو کیا کروں
غم مجھ کو لے کے جانب مے خانہ آ گیا
یارائے ضبط رہ نہ سکا روبروئے دوست
آنکھوں میں کھنچ کے درد کا افسانہ آ گیا
سوئے حرم چلے تھے بڑے اہتمام سے
قسمت کی بات راہ میں بت خانہ آ گیا
سجدے مچل رہے ہیں جبین نیاز میں
شاید قریب تر در جانانہ آ گیا
دل ہے اگر تو دل کا دھڑکنا ہے لازمی
روشن ہوئی جو شمع تو پروانہ آ گیا
یوں دور ہو گئی مری منزل کہ راہ میں
مے خانہ آ گیا کبھی بت خانہ آ گیا
اے شوقؔ ان کی بزم سے شہرت ملی مجھے
ہر سمت ایک شور ہے دیوانہ آ گیا
شوق ماہری