Gar zarry ko koi sabat na ho
غزل
گر ذرے کو کوئی ثبات نہ ہو
تو خدائی میں کوئی بات نہ ہو
کس کو احساس وصل کا ہوتا
موت ھر دائمی حیات نہ ہو۔
ریگزاروں میں پیاسا مر جاؤں
سامنے میرے پر فرات نہ ہو۔
کون ایمان غیب پر لاتا
دن نہ رات اگر رات نہ ہو۔
اک تصور ہے عالم _ ھو سے
جو نہ ہو یہ تو ممکنات نہ ہو۔
کچھ نہ ہوتا اگر نہیں پیدا
وجہ_ اظہارِ کائنات نہ ہو۔
راحت_ وصل نا ملے تب تک
جسم سے روح کو نجات نہ ہو۔
یہ کرے وہ کرے کرے نہ کرے
کیا کرے کوئی جب بساط نہ ہو۔
کیا اچھا ہو کہ راہِ محشر میں
پل تو ہو کوئی پل صراط نہ ہو۔
پیر غلام مجدد سرہندی
Peer Ghulam Mujadid Sarhandi