گر میں ترے آفاق کی وسعت سے نکل آؤں
ممکن ہے کہ پھر ورطہء حیرت سے نکل آؤں
پہلے تو میں عادت سے نکل آتا تھا باہر
ہو سکتا ہے اس بار میں وحشت سے نکل آؤں
جی چاہے تو اک بار ذرا پھینک لے پانسہ
شاید کہیں اب میں تیری قسمت سے نکل آؤں
یہ مجھ میں چونکانے کی عادت ہے عجب ہے
ہو سکتا ہے اب میں تیری بیعت سے نکل آؤں
ممکن ہے کہ حالات کا ادراک بھی ہو جائے
اک بار ذرا نشہ ء نصرت سے نکل آؤں
لوگوں کی نظر میں قمر آ سکتا ہوں میں بھی
گر میں ترے سائے، تری قربت سے نکل آؤں
اقبال قمر