Guzar Raha Hay yeh Moosim Bhi aur Maheena Bhi
غزل
گزر رہا ہے یہ موسم بھی اور مہینہ بھی
مگرہیں خشک ابھی تک یہ جام مینا بھی
انھوں نےسیکھ لیایوں ہی اب توجینابھی
‘اٹھا چکے ہیں کبھی سختئ شبینہ بھی،
اٹھالئےہیں جنھوں نےیہ سنگ ہاتوں میں
لئے ہیں ساتھ ہی وہ اپنےآب گینہ بھی
وہ جو کہ بنتے رہے آلہ ہائےاستحصال
بلندیوں کا کبھی چھوسکےنہ زینہ بھی
تھکا تو ڈال دئے نا خدا نے موجوں پر
نہ چپوؤں کوفقط ، ساتھ ہی سفینہ بھی
کہیں نہ ان کومنافق تو کیا کہیں پھراب
زباں پہ ساتھ حلاوت کےدل میں کینہ بھی
ہے انحصار ترقئ ملک غرباء پر۔
وہی حقیر بہاکر ہیں خوں پسینہ بھی
ہزار شکر رضیہ کہ رب نے فطرت میں
جڑا ہے علم و ادب کا مرے نگینہ بھی
رضیہ کاظمی
Razia Kazmi