نا جانے کب سے ہوں گمشدہ میں
پھر آج اپنی تلاش میں ہوں
وہ بیتے لمحے میری نگاہوں سے
چھپ گئے کیوں فراک پہنے
لگائے پونی وہ ننھی لڑکی
ابھی یہاں تھی کہاں گئی وہ
میں آئینوں میں تلاشتی ہوں
خلاوں میں پہروں کھوجتی ہوں
وہ اماں ، ابا وہ بھائی ، بہنیں ،
سہیلیاں سب عزیز چہرے
وہ میرا بچپن ، مری جوانی
عجیب سی ساعتوں میں مجھ سے
بچھڑ گئے ہیں
جو میں نے رکھے تھے
سینت کر اپنے دل کے بکسے میں
سارے لمحے وہ ان کے سنگ
جو گزارے لمحے وہ پیارے لمحے
سفر میں جانے کہاں گرے ہیں
وہ سرمئی خواب ناک شامیں
سنہری صبحیں وہیں کہیں راہ میں پڑی ہیں
گلاب اور موتیے کی کلیاں
سبھی کے مطلب بدل گئے ہیں
وہ پھول سیجوں پہ کھلنے والے
وہ آج قبروں پہ رل گئے ہیں
وہ چوڑیاں ، مہندی ، لال جوڑے
وہ پھول ، خوشبو وہ رنگ سارے
بکھر گئے ہیں
وہ ناچتے گاتے شوخ لمحے
جدائی کی لے میں ڈھل گئے ہیں
میں خود سے بچھڑے وہ امر لمحے
تلاشتی ہوں
میں اک اندھیری گپھا میں
صدیوں سے چل رہی ہوں
میں آج پھر خود کو ڈھونڈتی ہوں
میں برسوں پہلے سے گمشدہ ہوں
ہالہ