گوگل پہ اُس کے گاؤں کا نقشہ تو ہے نہیں
رستہ بھی میں نے ٹھیک سے پوچھا تو ہے نہیں
تم کہہ رہے ہو لوٹ کے آیا ہوا ہے وہ
کھڑ کی سے ایک بار بھی جھانکا تو ہے نہیں
گردان آؤ آؤ کی کرتا رہا ہوں میں
پنچھی مری مُنڈیر پہ اُترا تو ہے نہیں
اب کس طرح مناتا رہوں اُس کو بار بار
پچپن برس کا شخص ہے بچہ تو ہے نہیں
یہ دو دلوں کا رابطہ ٹوٹے بھی کس طرح
بندھن کسی کے پیار کا دھاگہ تو ہے نہیں
تم ہی بتا دو پاؤں کے چھالوں کا کیا کروں
اس دشتِ خار زار میں رکنا تو ہے نہیں
ارشد ملی جو زندگی زندہ دلی سے جی
پھر لوٹ کر جہان میں آنا تو ہے نہیں
ارشد محمود ارشد