Guloon ki Palki main Hay baharoon ki wo beti hay
غزل
گُلوں کی پالکی میں ہے، بہاروں کی وہ بیٹی ہے
چہیتی چاند کی روشن سِتاروں کی وہ بیٹی ہے
ہماری عِزّتیں سانجھی ہیں، بولی کوئی بھی بولیں
کِسی بھی ایک کی عِفّت، سو چاروں کی وُہ بیٹی ہے
وُہ چلتی ہے تو راہوں میں سُریلے ساز بجتے ہیں
کِسی اُجلی ندی کے شوخ دھاروں کی وہ بیٹی ہے
کِیا ہے بے رِدا جِس نے مِرے دہقاں کی بیٹی کو
وطن کے نام لیوا غمگُساروں کی وہ بیٹی ہے
بڑی مُدّت تلک جس بہن کو ہم نے عدُو سمجھا
سِتم سہتی رہی ہے، کوہساروں کی وہ بیٹی ہے
سُرِیلی بانسری کی تان اُس کی گُفتگُو ٹھہری
تراشِیدہ پری رُخ شاہکاروں کی وہ بیٹی ہے
ہماری زِندگی بے کیف گُزری ہے رشید حسرتؔ
نہیں جِس میں کوئی سُکھ، ریگزاروں کی وُہ بیٹی ہے
عبد الرشید حسرت
Abdul Rasheed Hasrat