غزل
گیروے کپڑے بدن پر ہاتھ لوہے کے کڑے
لے ملامت دار صوفی در پہ تیرے آ پڑے
اختیارات دیار دہر حاصل ہوں مجھے
مہر سے سونا کشیدوں ماہ سے چاندی جھڑے
بھیج دے مجھ کو جہان حسیات و لمس میں
شور سے الجھے سماعت آنکھ سے منظر لڑے
سرخ اینٹوں کی گلی تک جائیں ہم دیوانہ وار
دفعتاً اپنی نگہ اس کے دریچے پر پڑے
اس تعفن گاہ سا اک اور سیارہ بھی ہو
پیڑ مرتے ہوں جہاں تالاب میں پانی سڑے
ہر مسیحائے زماں کو خیر مقدم چاہیے
تاج ہو کانٹوں کا سر پر میخ ہاتھوں میں گڑے
احمد جہانگیر