عالمی ادب میں ہائیکو جاپانی شاعری کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔ ہائیکو کے موجد مشو جاپانی شاعر تھے جنہیں ہائیکو کا سرخیل کہا جاتا ہے
ہائیکو تین مصرعوں کی ایک مختصر سی نظم کہلاتی ہے جس میں فطرت سے متعلق مضامین نظم کئے جاتے ہیں۔ اردو میں ہائیکو کی روایت اگرچہ خاصی پرانی ہوچکی ہے لیکن نسبتاً کم ہی شعرا نے اس طرف سنجیدگی سے توجہ کی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس کی وجہ ہائیکو میں ایک مخصوص وزن کی پابندی اور مضامین کا محدود دائرہ ہے۔ لیکن وہ لوگ جو مختصر گوئی کے قائل ہیں اور کوزے میں دریا کو بند دیکھنا چاہتے ہیں ان کے لئے ہائیکو اچھا ذریعۂ اظہار ثابت ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں رئیس علوی نے ہائیکو کے ذریعے پاکستان سے جاپان تک ایک راہداری بنائی رئیس علوی نے جاپانی شاعروں کی جاپانی ہائیکو کے اردو تراجم کیے مشو کی شمال کا تنگ راستہ نامی ہائیکو کی کتاب مشو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیائے اردو کو دی جاپان حکومت نے رئیس علوی کو جاپان کے سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازا اس اعزاز کو The Order of Rising Sun , Gold Rays with Rosette کہا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں ہائیکو کی جانب
ہائیکو کیونکہ جاپانی صنفِ سخن ہے اور جاپانی زبان دو مصادر پرکھڑی ہے یعنی پوری جاپانی زبان کا ہر لفظ متحرک ساکن متحرک ساکن یعنی دو سبب پر بنتا ہے جیسے سو زو کی یا ما ہا اس لیے ہائیکو کا وزن اگر ہم علم العروض کے پیمانے پر بنائیں گے تو ہائیکو کی نظم کے تین مصرعوں کا وزن کچھ اس طرح بنے گا
پہلا مصرع فعلن فعلن فع دوسرا مصرع فعلن فعلن فعلن فع اور تیسرا مصرع فعلن فعلن فع دوسرے لفظوں میں یہ وزن پہلا مصرع 5 دوسرا 7 اور تیسرا 5 جوڑوں پر بنے کا یعنی متحرک ساکن ایک جوڑا متحرک ساکن دوسرا جوڑا متحرک ساکن تیسرا جوڑا متحرک ساکن چوتھا جوڑا متحرک ساکن پانچوں جوڑا یعنی سبب خفیف سبب خفیف یعنی فعلن پھر سبب خفیف سبب خفیف یعنی فعلن پھر سبب خفیف یعنی فع یہ 5 جوڑے ہوئے اسی طرح دوسرا مصرع اور تیسرا مصرع بنتا ہے
ایک بار پھر دہراتا ہوں ہائیکو تین مصرعوں کی نظم ہوتی ہے ۔ پہلے اور تیسرے مصرع کا وزن فعلن فعلن فع اور دوسرے مصرع کا وزن فعلن فعلن فعلن فع ہوتا ہے ۔ ان میں فع کو فاع اور فعل میں بھی بدلا جاسکتا ہے۔ شاعری کی اصطلاح میں دو حرفی لفظ یا ٹکڑے کو سبب کہتے ہیں (جیسے کل ، ہم ، آ ، مجھ وغیرہ) اور اس کی جمع اسباب کہلاتی ہے۔ سو بہ الفاظِ دیگر ہائیکو کے پہلے اور تیسرے مصرع میں پانچ پانچ اسباب اور دوسرے مصرع میں سات اسباب ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ ہائیکو میں غیر مردف ہے مگر امرود اور موجود ہم قافیہ ہیں
کاٹا جو امرود
پہلے سے اک کیڑا تھا
کھانے کو موجود
ہائیکو میں ردیف اور قافیے کی کوئی قید نہیں ۔ لیکن اگر آپ چاہیں تو مصرعوں کو ہم آواز بناکر نظم کی خوبصورتی بڑھاسکتے ہیں ۔ ہائیکو میں فطرت کا رنگ اگر نہیں ہوگا تو ہائیکو اپنی جازبیت اور چاشنی کھو دیگی کیونکہ ہائیکو ہی کی طرح گلزار نے تروینی کی صنف کو بھی متعارف کرایا ہے وہ بھی تین ہی مصرعوں کی ہوتی ہے مگر تروینی میں اوزان کی کوئی شرط نہیں تروینی کسی بھی وزن میں کہی جا سکتی ہے تروینی پہلے مصرعے میں گنگنا دوسرے میں جمنا کا عکس دکھاتی ہے جو سامنے ہیں تیسرے مصرع میں سرسوتی کو کھوج کر سامنے لاتی ہے جس کے نشان مٹ چکے ہیں
ایک ہائیکو پیش کر رہا ہوں جو ردیف و قافیے سے آزاد ہے
لمحوں کی تتلی
میرے دل کے آنگن میں
جانے کیوں آئی
نسیم شیخ