ہاتھوں سے ہر لکیر کھرچ کر مٹائی ہے
تب جا کے وہ حسیں مری قسمت میں آئی ہے
یہ زندگی تلاش محبت میں میں نے بھی
ایسے گنوائی ہے کبھی ویسے گنوائی ہے
ماتھے پہ لے کے پھرتا ہوں اس بے وفا کا غم
میں نے بھی کس سلیقے سے تہمت سجائی ہے
پہلے پہل تو وہ مرے پہلو سے آ لگی
پھر اس کے بعد اس نے قیامت اٹھائی ہے
ایسے ہی تھوڑی ذائقہ آیا ہے چائے میں
چینی کے ساتھ اس نے محبت ملائی ہے
تم کو بتاؤں راز میں شیریں زبان کا
گھٹی میں اردو گھول کے ماں نے چٹائی ہے
یاسر سعید صدیقی