.ہاتھ میں جام ہے دل کو آرام ہے
اب ہمیں عشق سے کوئی کیا کام ہے
جس نے لوٹا ہمیں پارسا تھی بہت
یہ طوائف تو بس یونہی بدنام ہے
جائیے شیخ جی ہم سے ملیے نہیں
ہم پہ پینے پلانے کا الزام ہے
خالی بوتل ہیں ہم وہ بھی ٹوٹی ہوئی
ہم سمجھتے ہیں کیا اپنا انجام ہے
وہ ملے خواب میں اور کہنے لگے
یہ سہولت بھی بس آج کی شام ہے
لڑکھڑا شاہ دل جھوم جا ! شاہ دل
یہ تری زیست کا آخری جام ہے
شاہ دل شمس