loader image

MOJ E SUKHAN

ہادی مچھلی شہری غزل قافلے کو منزل تک گامزن کرنے والا شاعر

ہادی مچھلی شہری کی پیدائش: 1890ء – وفات: 25 اکتوبر 1961ء)

ہادی مچھلی شہری 1890 کو ضلع جونپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید عبدالرزاق غالب کے شاگروں میں سے تھے۔ اپنے والد کے زیر اثر وہ بھی بہت چھوٹی سی عمر سے شعر کہنے لگے تھے۔ جلیل مانک پوری سے مشورۂ سخن کے بعد ان کی تخلیقی صلاحیتیں اور نکھرنے لگیں۔ ’صدائےدل‘ ’نوائے دل‘ ان کے شعری مجموعے ہیں۔
ہادی مچھلی شہری پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے۔ علی گڑھ اور الہ آباد میں وکالت کی۔ تقسیم کے بعد کراچی چلے گئے تھے۔ کراچی میں ہی 25 اکتوبر 1961 کو انتقال ہوا۔

ہادی مچھلی شہری از جگر مراد آبادی حضرت ہادی مچھلی شہری کی ذات محتاجِ تعارف نہیں ۔ میرے قدیم احباب میں سے ہیں ۔ میں نے انہیں قریب اور دور سے دیکھا ہے ۔ موصوف بہ اعتبار شخصیت نہایت خلیق ، پاکیزہ مزاج ، بے ہمہ اور باہمہ انسان ہیں ۔یہی عناصر ان کے کلام میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ بحیثیت شاعر ان کا شمار اساتذہ میں ہے ۔ مشقِ سخن یقیناََ چالیس سال سے کم نہیں ۔قادرالکلامی اور پُر گوئی موصوف کی خصوصیات میں سے ہیں ۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں ۔ جب جی چاہے اور جتنا جی چاہے کہہ سکتے ہیں ۔جس طرح موصوف اردو اور فارسی پر قادر ہیں اسی طرح وہ تمام اصنافِ سخن پر بھی تسلط رکھتے ہیں ۔

ایک صاحبِ شعور ، سلیم الفطرت انسان کے تجرباتِ مسلسل کے لیے اگر اس کی علمی صلاحیتیں محض تقلید کے دائرے میں محدود ہو کر نہیں رہ گئی ہیں تو بلکہ وہ ذاتی فکر و نظر بھی رکھتا ہے ، ناممکن ہے کہ عمر کی رفتار اور ماحولِ زمانہ کے ساتھ ساتھ خود اس کا شعور بھی بالغ اور بالغ تر نہ ہوتا جائے ۔ہر زمانے میں ہر صحیح ناظم کے کلام میں تفصیلاََ ملی عنوان کے ماتحت اور ہر صحیح شاعر کے افکار میں اجمالاََ اپنے زمانہ اور ماحول کے متعلق تاثرات پائے جائیں گے ۔مشرق میں شاعر و ناظم کی تقسیم بہ اعتبار مشاغل تھی نہ کہ بہ اعتبار مقابلہ ۔ اور یہ تقسیم کار اپنی اپنی جگہ ہمیشہ اپنا اپنا فرض ادا کرتی رہی ہے ۔لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شاعر و ناظم کی استعدادیں بیک وقت ایک ہی شخص میں جمع ہو جاتی ہیں ۔حضرت ہادی مچھلی شہری میں یہ دونوں خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں ۔

بعض شعرا اور حضرت ہادی کی خصوصیاتِ کلام میں جو فرق ہے اس کے لیے ایک علیحدہ بحث و نظر کی ضرورت ہے ۔ اس وقت صرف اس قدر کہنا کافی ہو گا کہ دراں حالے کہ اکثر شعرا کی شہرت شاگرد سازی اور پروپیگنڈے کی رہین منت ہے جب کہ حضرت ہادی مچھلی شہری نہایت خاموش اور بے نیاز انسان واقع ہوئے ہیں ۔شاعر کی زندگی اور اس کے کلام میں مطابقت نہ ہو تو اسے بقائے دوام کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی ۔میں خوش ہوں کہ حضرت ہادی مچھلی شہری میں یہ مطابقت موجود ہے ۔

انہوں نے اپنی قوہ کو پروپیگنڈے اور اس طرح کی دوسری سازشوں میں صرف نہیں کیا ۔ مجھے یقینِ کامل ہے کہ ان کے کلام کو بقائے دوام ضرور حاصل ہو گی ۔ ان شاء اللہ ۔

ہادی مچھلی شہری کا منتخب کلام حاضر ہے!

مجھ کو کسی کی شمعِ تجلی سے کیا غرض
پروانہ ہوں میں اپنے دلِ بیقرار کا

دل کی بلندیاں نہ دیکھ ، دل کی رسائیاں نہ پوچھ
میری فضائے شوق میں زحمتِ بال و پر نہیں

بے تابیٔ فرقت میں گماں ہوتا ہے ہادیؔ
دامن مرے دل کا نہ قیامت سے ملا ہو

اتنا تو سمجھتا ہوں کہ سجدے میں جبیں ہے
اب تیرے تصور میں نہ دنیا ہے نہ دیں ہے

ہادی مچھلی شہری