ہاں اپنے آپ کو خود میں چھپا لیتا ہوں میں اکثر
زمانے کی ہواؤں سے بچا لیتا ہوں میں اکثر
ضمیر و دل کو بھی تنہا بٹھا کر سامنے اپنے
انوکھی سی کوئی محفل سجا لیتا ہوں میں اکثر
ہاں اپنی آس کی ہر شب اندھیروں میں ڈبونے کو
دیے اس سوچ کے سارے بجھا لیتا ہوں میں اکثر
جہاں کی شورشوں سے جب بھی لگتا ہے مجھے ڈر تو
نئی دنیا کوئی دل میں بسا لیتا ہوں میں اکثر
کہانی پوچھتا ہے کوئی گر فرہاد و مجنوں کی
اسے اپنی کہانی ہی سنا لیتا ہوں میں اکثر
اٹھائے نفرتوں کی کوئی گر دیوار تو اس میں
دریچہ پیار کاکوئی بنا لیتا ہوں میں اکثر
کبھی جو ہجر اس کا جاگ جاتا ہے تو پھر امبر
اسے سینے کے اندر ہی چھپا لیتا ہوں میں اکثر
عبدالمجید راجپوت امبر