غزل
ہاں غم دل کی ترے پاس دوا ہے تو سہی
درد کچھ تیری توجہ سے سوا ہے تو سہی
موجب راحت دل تیری وفا ہے تو سہی
کچھ نہ کچھ پھر بھی مجھے تجھ سے گلہ ہے تو سہی
دل کو مطلوب ہے اک چیز شفا سے بھی سوا
ورنہ یوں درد محبت کی دوا ہے تو سہی
میں نہ کہتا تھا اس آواز سے مانوس ہوں میں
پردۂ ساز میں تیری ہی صدا ہے تو سہی
اب نہ کھاؤں گا تری چشم مروت کا فریب
میری نظروں میں تری طرز جفا ہے تو سہی
ایک دنیا ہے کہ بیتاب پڑی پھرتی ہے
کچھ نہ کچھ درد محبت میں مزا ہے تو سہی
اور درکار ہے کیا دل کی تسلی کے لئے
مجھ سے وہ شوخ کئی دن سے خفا ہے تو سہی
سچ ہے کب تک رہے امید پہ کوئی اے دل
اب تری برہمیٔ شوق بجا ہے تو سہی
واہ کیا پائی ہے رنگین طبیعت میں نے
کم کہوں شعر مگر طبع رسا ہے تو سہی
آپ کے لطف کی امید پہ جیتا ہے جلیلؔ
ورنہ سنتے ہیں وہ جینے سے خفا ہے تو سہی
جلیل قدوائی