غزل
ہجر آثار تھا اک شہر تہ دل نہ رہا
آ گئے تم تو کوئی چاہ کے قابل نہ رہا
وقت کی کونسی جہتوں میں تجھے ڈھونڈھتی میں
کہکشاں دل نہ ہوئی عشق در دل نہ رہا
مل کہ اب جا کے میسر ہوئی پوری خلوت
آ کہ اب دشت بدن بیچ میں حائل نہ رہا
جام گردش میں اسی جرعۂ بے نام سے تھے
چشم ساقی جو بجھی نشہ محفل نہ رہا
خاک اڑانے کو کہاں جائے بدن کی مٹی
دل ہی جب جسم کے آزار میں شامل نہ رہا
اس کے دیکھے سے دمک اٹھی پرانی تصویر
عکس خود بول اٹھے آئنہ گھائل نہ رہا
تیسرے عشق نے زندہ کیا آخر مجھ کو
وہ جو اک مرحلہ دشوار تھا مشکل نہ رہا
صائمہ زیدی