loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

11/08/2025 07:42

ہر ایک در پہ سر کو ٹپکنے کے باوجود

غزل

ہر ایک در پہ سر کو ٹپکنے کے باوجود
کعبہ پہنچ گیا ہوں بھٹکنے کے باوجود

کیا کیجیئے کہ گرد طلب کی جمی رہی
دامان دل کو روز جھٹکنے کے باوجود

شاید کھلی ہے آپ کے آنے سے چاندنی
دھندلی سی لگ رہی تھی چھٹکنے کے باوجود

کیسا ہے یہ بہار کا موسم کہ باغ میں
ہنستی نہیں ہیں کلیاں چٹکنے کے باوجود

ہم بھی کتاب زیست کو پڑھتے چلے گئے
ایک ایک حرف غم پہ اٹکنے کے باوجود

اب کے جنوں میں عالم شوریدگی نہ پوچھ
قائم رہا ہے سر کو پٹکنے کے باوجود

راحت گزار دی ہے بڑی شان سے حیات
آنکھوں میں زندگی کی کھٹکنے کے باوجود

اوم کرشن راحت

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم