غزل
ہر ایک چہرہ یہاں درد کی کتاب لگے
تمہارا شہر تو اک شہر اضطراب لگے
یہ کور چشمی ہے یا جلتے سورجوں کا اثر
کوئی بھی شکل نہ اب بنت ماہتاب لگے
نہ جانے کیوں مرا لہجہ ہے سخت سخت اتنا
کہ التماس کا انداز بھی عتاب لگے
یہ بانجھ بانجھ سے بادل یہ ریت ریت زمیں
ببول کی یہ جگہ ہے کہاں گلاب لگے
ہر ایک سمت دھواں سا ہے ناامیدی کا
ہر ایک منزل امید اب سراب لگے
یہ کس مقام پہ لے آئی آگہی مجھ کو
نہ سنگ سنگ لگے اور نہ آب آب لگے
نہ وہ ہی وہ ہے نہ میں میں نہ تم ہی تم بدنام
سبھی کے چہرے پہ ہیں سیکڑوں نقاب لگے
بدنام نظر