ہر ایک چیز تو شام و سحر کی زد میں ہے
ہمارا قلب تمہاری نظر کی زد میں ہے
بہارِحسن سے ہر بات کس طرح بنتی
مزاج ان کا نشے کے اثر کی زد میں ہے
اک آشیاں تو نہیں ہے کہ کچھ خیال کروں
چمن تمام جو برق و شرر کی زد میں ہے
یقین آئے بھی تو کس طرح یقیں آئے
تمہاری بات اگر یا مگر کی زد میں ہے
یہ کائنات خدا کی وسیع تر قیصر
فقط طلب ہی شعورِ بشر کی زد میں ہے
رانا خالد محمود قیصر