ہر قدم آوارگی کا بھید ہے
گمرہی، بے رہ روی کا بھید ہے
جاوداں ہیں سلسلے تخلیق کے
ہر نمود- گل کسی کا بھید ہے
ہر قدم درپیش کوئ حادثہ
ہر امر میں ان کہی کا بھید ہے
شاہد و مشہود دونوں ایک ہیں
ہر خدائ ، بندگی کا بھید ہے
کون پاے گا سواے موت کے
بھید آخر زندگی کا بھید ہے
سر کو ٹکرانا کسی دیوار سے
اور کیا دیوانگی کا بھید ہے
آج اچانک جو کھلا ہے عشق میں
شازیہ اکبر کبھی کا بھید ہے
شازیہ اکبر