Her qadam per waqt mujh ko such hay samjhata raha
غزل
ہر قدم پر وقت مجھ کو سچ ہے سمجھاتا رہا
میں وہ سب کہتا رہا جو دل کہلواتا رہا
لٹ نہ جائے یہ مرے اجداد کا ورثہ کہیں
بے بسی سے بے حسی کے پاؤں دبواتا رہا
پرورش کرنے کی خاطر بانجھ ان الفاظ کی
کھینچ کر خود کو سرِ بازار میں لاتا رہا
زندگی تیرے درِ دولت کے دستر خوان سے
میں بہ شکلِ رزق دھوکے ہی فقط کھاتا رہا
اس نے خنجر کو رسائی دی مری گردن تلک
جو مرے دل کے نہاں خانے کو گرماتا رہا
شاخِ حسرت پر لگا کر اک قلم امید کی
اپنے ہونے کا نشاں ہر ایک مٹواتا رہا
وہ ہتھیلی کی لکیروں میں کہیں روپوش ہے
جو ہواؤں کے مخالف مجھ کو چلواتا رہا
طے سفر کرتی رہی محور کا اپنے زندگی
اور میں دروازہِ تقدیر کھٹکاتا رہا
میں نے بس تہذیب کی دیوار پر ڈالی کمند
جو کہیں پر بھی نہیں تھا وہ نظر آتا رہا
میں نے اک موجِ نسیمی کا تراشا کیا بدن
گھر کا سناٹا بھی پتھر مجھ پہ برساتا رہا
نسیم شیخ