ہر نفس ان کی بات کی جائے
یوں بسر اب حیات کی جائے
بجھ رہے ہیں چراغ اشکوں کے
کیسے تابندہ رات کی جائے
تشنگی کا یہی تقاضہ ہے
چشم ساقی سے بات کی جائے
اہتمام سفر بھی لازم ہے
کچھ تو فکر نجات کی جائے
اپنے ہی غم پہ تبصرہ نہ کروں
کیوں زمانے کی بات کی جائے
زیست کا لطف جب ہے اے صادقؔ
صرف توصیف ذات کی جائے
صادق دہلوی