غزل
ہر پل جو کاٹتی ہے مجھے دھار ہی تو ہے
اکرامؔ اپنی سانس بھی تلوار ہی تو ہے
اونچی عمارتوں کے نگر میں مرے لئے
جائے پناہ سایۂ دیوار ہی تو ہے
ہٹتی ہے سامنے سے مرے کب یہ دیکھیے
اپنی انا بھی راہ کی دیوار ہی تو ہے
ردی کے بھاؤ بیچنے نکلے ہوئے ہیں لوگ
یہ زندگی پڑھا ہوا اخبار ہی تو ہے
صبا اکرام