ہزار حرفِ شکایت ملال اپنی جگہ
ترے وجود کا حسن و جمال اپنی جگہ
جلاۓ بیٹھے ہیں فکر و نظر کی قندیلیں
مگر وہ کم نظری اور سوال اپنی جگہ
وہ چشمِ نم دلِ شوریدہ کلفتِ ہستی
نگاہِ ناز کا حسنِ کمال اپنی جگہ
طوافِ منزلِ جاناں تو شیوۀ دل تھا
وہ ایک ہجر کی صورت وصال اپنی جگہ
میں ڈھونڈتا ہوں وہ فیضانِ نغمہ و آہنگ
ہے ضبطِ غم مری عادت دھمال اپنی جگہ
متاعِ جان تجھے کس طرح سنوارنا ہے
بقدرِ ہوش چلے ہیں زوال اپنی جگہ
دلِ خراب کو خواہش نے مار ڈالا شآد
کہاں کا ترکِ محبت خیال اپنی جگہ
شجاع الزماں خان شاد