Hamari Jaan ki Dushman Hay Jab Umr e Gureezan tak
غزل
ہماری جان کی دشمن ہے جب عمرِ گریزاں تک
تو کیا حیرت تمہارے ہاتھ آ پہنچے گریباں تک
قلم کی نوک نے کاغذ پہ رکھے ہیں کئی سجدے
نہیں ممکن کوئی نشتر کبھی پہنچے رگِ جاں تک
لگا کر مخلصی کا دیکھ لو اک بار تم سرمہ
نظر آئیں گے خونی بھیڑیے کم بخت انساں تک
اگر خود سے یقیں اٹھ جائے خود اپنا تو پھر سچ ہے
نویدِ صبح آ سکتی نہیں قلبِ پریشاں تک
سنی تھیں حسرت و فانی کی غزلیں یا مری آہیں
جو سیلن کو رسائی مل گئی دیوارِ زنداں تک
مری آواز کو لے کر پہنچ جائیں تو کیا کہنے
مرے آنسو بہ شکلِ شعر اک شامِ غریباں تک
خدا کے نام پر اس دارِ فانی میں خدا والے
سرِ بازار لاتے ہیں فرشتے حور و غلماں تک
سنائی دے رہی ہے دل کی دھڑکن میں عجب آواز
کوئی پہنچا ہے شاید تیر اس قلبِ پریشاں تک
زمانے کے خداؤں کو دکھایا آئنہ دل نے
سفر کرنا پڑا مجھ کو درِ جاناں سے زنداں تک
ہوئی تھی گفتگو کل رات اک موجِ نسیمی سے
ہے تب سے رقص میں تنہائی اور آشفتہ ساماں تک
نسیم شیخ
Naseem Shaikh