ہماری ہر ایک صُبح ، ہر ایک شام ، اوندھی پڑی ہُوئی ہے
وہ شان و شوکت ، وہ بادشاہی ٬ تمام ٬ اوندھی پڑی ہُوئی ہے
رَکاب ہے اُس طرف ، اُدھر وہ لگام ، تِیر و کمان ، ترکش
رہی وہ تلوار ، ساتھ خالی نیام ، اوندھی پڑی ہُوئی ہے
وہ عیش و عشرت رہی نہ باقی ، وہ میکدے ہی رہے نہ ساقی
وہ بزمِ رقص و سُرود ، بے ننگ و نام ، اوندھی پڑی ہُوئی ہے
وہ ولولہ ہے نہ جوش کوئی ، نہ حوصلہ ہے نہ ہوش کوئی
جو قوم حاکم رہی وہ ، بن کے غُلام ، اوندھی پڑی ہُوئی ہے
کہیں وہ سرداری کھوگئی ہے ، وہ استقامت بھی سوگئی ہے
کہوں میں کیا رہبری کی ، چھوڑی زِمام ، اوندھی پڑی ہُوئی ہے
شعور جاویدؔ پاگئے ہو تو ٬ پاسِ احساں ہُوا ہے لازم
کہ بُھول بیٹھی جو قوم ، اُس کا نظام ، اوندھی پڑی ہُوئی ہے
جاوید احمد خان جاویدؔ