ہمارے دل پہ اجارا، اُسی کا ہے صاحب
ہم اہل دل کو سہارا، اُسی کا ہے صاحب
میں نیند میں بھی کسی اور کی نہیں ہوتی
کہ مجھ کو نام گوارا اُسی کا ہے صاحب
جو فائدے کو فقط اپنا حق سمجھتا ہے
محبتوں میں خسارہ اُسی کا ہے صاحب
ہے اس کی فرماں روائی بساط ہستی پر
جہان سارے کا سارا اُسی کا ہے صاحب
اُسی کی مالا جپوں گی میں استعاروں میں
اک ایک لفظ اشارا اُسی کا ہے صاحب
جدھر نگاہ اٹھا ئیں جہاں کریں محسوس
مہک اسی کی نظارا، اسی کا ہے صاحب
وہ لوٹ آیا ہے شاید مرے لیے زریاب
فضا میں شور دوبارہ اُسی کا ہے صاحب
ہاجرہ نور زریاب