Hamdardioo ki Bheek Nahi Chahyee Mujhy
غزل
ہمدردیوں کی بھیک نہیں چاہیے مجھے
دل کا سکون خود پہ یقیں چاہیے مجھے
رکھنی ہے لاج مجھ کو محبت کی اس لیے
یہ سوچ اور شعور حسیں چاہیے مجھے
بے کار مال و زر کی نہ حاجت رکھی کبھی
لیکن خزانہ عرش یہیں چاہیے مجھے
جھلسا کے رکھ دیا ھے مقدر کی آگ نے
اک پل خوشی کہیں نہ کہیں چاہیے مجھے
قیدی ہوں اپنی سوچ کے زندان کی خدا
اس قید سے رہائی نہیں چاہیے مجھے
یہ عمر درد سہتے گزاری ہے اس لیے
اس کرب کا کفن بھی یہیں چاہیے مجھے
اک معجزہ دکھانے کی ہے دل میں آرزو
مجھ پر اے دوست تیرا یقیں چاہیے مجھے
دستور عشق لکھنا ہے بے داغ مجھ کو سن
تو ہر گھڑی گماں سے قریں چاہیے مجھے
لے آئے رنج و غم کے اندھیروں میں روشنی
وہ سوچ اور گمان حزیں چاہیے مجھ
پل پل تصورات کی دنیا میں مست تھی
اب تو حقیقتوں سی زمیں چاہیے مجھے
رو رو کے خود سے کہتی ہے شاہین آج کل
جو چاہیے تھا کل وہ نہیں چاہیے مجھے
شاہین مغل
Shaheen Mughal