غزل
ہمیشہ انسانیت کا دشمن رہا رقابت کا تازیانہ
جدھر ہوا سازگار دیکھی اٹھا ادھر چل پڑا زمانہ
دلوں کی حالت خدا ہی جانے کلام لیکن ہے مخلصانہ
نظر کا ہر فعل مشفقانہ زبان کی باتیں مکرمانہ
تمہاری نظریں حریص نظریں بہ زعم زر چھیڑ کر رہی ہیں
مگر ہمارے بھی صبر پیہم کو بھول سکتا نہیں زمانہ
خدا کو مانو ہمیں نہ چھیڑو نظر نہ ڈالو ہمارے دل پر
نہ جم سکا ہے نہ جم سکے گا کبھی جو قبضہ ہو غاصبانہ
تمہاری باتیں عجیب باتیں نہ سر ہی سالم نہ پیر قائم
نہ عالمانہ نہ عاقلانہ نہ عارفانہ نہ شاعرانہ
حضور حالات مشتبہ ہیں منڈھے چڑھے گی یہ بیل کیوں کر
ہمارے اقدام دوستانہ تمہاری فطرت مخالفانہ
ابوالفطرت میر زیدی