ہمیں دائم کہاں رہنا ہے چلے جانا ہے
جس پہ چلتے ہیں اسی خاک تلے جانا ہے
اک ذرا نزع کی تکلیف کا چکھنا ہے مزا
اک یہ خواہش کہ تجھے مل کے گلے جانا ہے
موت لے جائے گی مجھ کو جھپٹ کرتجھ سے
زندگی! تونے فقط ہاتھ ملے جانا ہے
جانِ من! میں ہوں ترے صحن کا خود رُو پودا
وقت کے ساتھ ہی میں نے بھی پَلے جانا ہے
تمہیں جانا ہے تو یہ شمع بجھاتے جانا
رات بھر کس کے لیے اس نے جلے جانا ہے
رانا سعید دوشی