ہمیں نزدیک کب دل کی محبت کھینچ لاتی ہے
تجھے تیری مجھے میری ضرورت کھینچ لاتی ہے
۔
چھپا ہے جو خزانہ تہہ میں ان بنجر زمینوں کی
اسے باہر زمیں سے میری محنت کھینچ لاتی ہے
۔
میں ماضی کو بھلا کر اپنے مستقبل میں زندہ ہوں
نگاہوں سے ہے جو اوجھل بشارت کھینچ لاتی ہے
۔
مرا دشمن مری آنکھوں سے اوجھل ہو نہیں سکتا
مرے نزدیک اس کو دل کی نفرت کھینچ لاتی ہے
۔
سمندر پار جانے والے اک دن لوٹ آئیں گے
مرا ایماں ہے مٹی کی محبت کھینچ لاتی ہے
۔
جو اپنا گھر کسی کے عشق میں برباد کرتے ہیں
انہیں صحرا میں ان کے دل کی وحشت کھینچ لاتی ہے
۔
کبھی ہوتا ہے جو ویران میرے شہر کا مقتل
کسی منصور کو عارفؔ صداقت کھینچ لاتی ہے
عارف شفیق