ہم اعتبارِ فکر و نظر لے کے آئے ہیں
کچھ اجلے موسموں کی خبر لے کے آئے ہیں
رکھی ہوئی ہے ہم نے نظر گرد و پیش پر
تجسیم ہوتے شام و سحر لے کے آئے ہیں
کھلنے لگا ہے آنکھ پہ جو منکشف نہ تھا
ہم اپنی جستجو کا ثمر لے کے آئے ہیں
دیکھے جسے یقیں نہیں وہ دیکھے ایک بار
آنکھوں میں خواب بارِ دگر لے کے آئے ہیں
رکھنا ہے اس کو ساتھ بڑے اہتمام سے
اک یادِ دلنواز کو گھر لے کے آئے ہیں
اترے گی بالکونی پہ پھر اجلی چاندنی
ہم اپنی ہر دعا کا اثر لے کے آئے ہیں
اک عمر ساحلوں پہ رہے خیمہ زن مگر
لوٹے تو ساتھ لعل و گہر لے کے آئے ہیں
کہہ دو اسے وہ پوری طرح جان لے ہمیں
ہم اپنے سارے عیب و ہنر لے کے آئے ہیں
وہ راستے سے لوٹ کے واپس نہ جائیں گے
جو ساتھ اپنا رختِ سفر لے کے آئے ہیں
یوسف خالد